اللہ کی بہتری (Allah ki Behtari)
بادشاہ جو بھی بات کرتا تو وزیر کہتا اسی میں کوی بہتری ھو گی۔ ایک دفعہ بادشاہ کی انگلی کٹ گئی وزیر نے کہا اس میں اللہ کی کوی بہتری
ھوگی بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ میری انگلی کٹ گئی ھے اور تم کہہ رھے ھو کہ اسمیں بھی اللہ کی کوی بہتری ھوگی۔بادشاہ نے وزیر کو جیل میں ڈال دیا تو پھر بھی وزیر نے کہا کہ اس میں بھی اللہ کی کوی بہتری ھوگی بادشاہ کو غصہ آیا۔ بحرحال بادشاہ شکار کے لئیے گیا جنگل میں ایسی جگہ چلا گیاجہاں پر ایسے لوگ رھتے تھے کہ وہ سال میں ایک آدمی کو زبح کرتے تھے انہوں نے باشاہ کو پکڑلیا جب اس کو زبح کرنے لگے تو انہوں نے دیکھا بادشاہ کی انگلی کٹی ھوی ھے انہوں نے بادشاہ کو چھوڑ دیا کہ ھم ایسے شخص کو زبح نہیں کرتے جس کے جسم سے کوی بھی چیز کٹی ھو یا خراب ھو انہوں نے بادشاہ کو چھوڑ دیا۔بادشاہ واپس آتا ھے وزیر سے بہت خوش ھوتا ھے اس کو بلاتا ھے اور کہتا ھے واقعی اللہ کے ھرکام اللہ کی کوی بہتری ھوتی ھے میری انگلی کٹی تھی میری جان بچ گئی جب میں نے تمہیں جیل میں ڈالا اس وقت بھی تم نے یہی کہا ۔تمہارے جیل جانے میں کیا بہتری تھی؟وزیر کہتا ھے اگر میں جیل میں نہ ھوتا آپ نے مجھے شکار پر لے کر جانا تھا آپ کی انگلی کٹی تھی آپ کو انہوں نے چھوڑ دینا تھا اور آپ کی جگہ انہوں نے مجھے زبح کر دینا تھا اب سمجھ آی کہ اللہ کے ھر کام میں بہتری ھوتی ھے ....اے انسان!! تقدیر کے لکھے پر کبھی شکوہ نہ کیا کر،تو اتنا عقل مند نہیں جو "رب" کے ارادے کو سمجھ سکے
دوبارہ (Hakayat Sheikh Saadi)
ایک بادشاہ اپنے مُنہ زور گھوڑے پر سوار تھا. گھوڑا کسی وجہ سے بدکا تو بادشاہ سر کے بل زمین پر گر گیا اور اس کی گردن کی ھڈی کے مُہرے ہل گئے اب وہ گردن کو حرکت دینے پر بھی قادر نہ رہا. شاہی طبیبوں نے اپنی طرف سے سر توڑ کوششیں کیں مگر وہ بادشاہ کا علاج نہ کر سکے. ایک دن یونان کا ایک حکیم بادشاہ کے پاس آیا اور اس قدر جانفشانی سے علاج کیا کہ بادشاہ ٹھیک ھو گیا . علاج کے بعد وہ حکیم اپنے وطن لوٹ گیا. کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ بادشاہ کے وطن میں آیا تو سلام کے ارادے سے شاھی دربار میں حاضر ھوا اب لازم تھا کہ بادشاہ از روئے قدر دانی اس حکیم سے مروت اور مہربانی کا برتاؤ کرتا لیکن بادشاہ ایسے بن گیا جیسے اس حکیم کو جانتا ھی نہ ہو بادشاہ کے اس رویے سے حکیم بہت سخت رنجیدہ ھوا. یونانی حکیم بادشاہ کے دربار سے باہر آیا تو اس نے ایک غلام کو پاس بلا کر کہا! میں تمہیں کچھ بیچ دیتا ھوں انہیں بادشاہ کی خدمت میں پیش کرنا اور کہنا کہ یونانی حکیم نے دئیے ھیں. انہیں دہکتے انگاروں پر ڈال کر ان کی دھونی لی جائے تو بہت فائدہ ہوتا ھے.غلام نے وہ بیچ بادشاہ کو پیش کر دئیے اور ساتھ میں ان کے فوائد سے بھی آگاہ کیا بادشاہ کے حکم سے فورا دہکتے انگارے پیش کیے گئے مگر جب بیچ انگاروں پر ڈال کر بادشاہ نے دھونی لی تو اسے ایک زور دار چھینک آئی جس سے اس کی گردن کے مہرے پھر سے پرانی حالت میں چلے گئے. بادشاہ بہت چیخا چلایا سپاہی دوڑائے کہ حکیم کو گرفتار کر کے لاؤ باوجود بہت تلاش و بسیار کے اس حکیم کا کچھ پتا نہ چلا.ساری عمر بادشاہ نے ایسی
ھی گزار دی. شیخ سعدی علیہ الرحمہ فرماتے ھیں کہ ہمیشہ محسن کو بھلائی کے ساتھ یاد رکھنا چاہیے.احسان فراموش شخص کمینہ ھوتا ھے اور فرمان خداوندی ھے کہ کمینہ شخص بھلائی نہیں پا سکتا.
تاریخ کا دلیر ترین جاسوس
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی للہ عنہ نے 7 افراد لشکرفارس کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کیلئے بھیجے اور انھیں حکم دیا کہ اگر ممکن ہو سکے تو اس لشکر کے ایک آدمی کو گرفتار کر کے لے آئیں!!
یہ ساتوں آدمی ابھی نکلے ہی تھے کہ اچانک انھوں نے دشمن کے لشکر کو سامنے پایا .. جبکہ ان کا گمان یہ تھا کہ لشکر ابھی دور ہے..انھوں نے آپس میں مشورہ کر کے واپس پلٹنے کا فیصلہ کیا ، مگر ان میں سے ایک آدمی نے امیر لشکر سعد کی جانب سے ذمہ لگائی گئی مہم کو سرانجام دئیے بغیر واپس لوٹنے سے انکار کر دیا!!
اور یہ چھ افراد مسلمانوں کے لشکر کی جانب واپس لوٹ آئے ..جبکہ ہمارا یہ بطل اپنی مہم کی ادائیگی کیلئے فارسیوں کے لشکر کی جانب تنہا بڑھتا چلاگیا!!
انھوں لشکر کے گرد ایک چکر لگایا اور اور اندر داخل ہونے کیلئے پانی کے نالوں کا انتخاب کیا اورا س میں سے گزرتا ہوا فارسی لشکر کے ہراول دستوں تک جاپہنچا جو کہ 40 ہزار لڑاکوں پر مشتمل تھے!!
پھروہاں سے لشکر کے قلب سے گذرتا ہوا یک سفید خیمے کے سامنے جاپہنچا ، جس کے سامنے ایک بہترین گھوڑا بندھا کھڑا تھا، اس نے جان لیا کہ یہ دشمن کے سپہ سالار رستم کا خیمہ ہے!!
چنانچہ یہ اپنی جگہ پر انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ رات گہری ہو گئی ، رات کا کافی حصہ چھا جانے پر یہ خیمہ کی جانب گئے ، اور تلوار کے ذریعے خیمہ کی رسیوں کو کاٹ ڈالا ، جس کی وجہ سے خیمہ رستم اور خیمہ میں موجود افراد پر گر پڑا ، گھوڑے کی رسی کاٹی اور گھوڑے پر سوار ہو کر نکل پڑے اس سے ان کا مقصد فارسیوں کی تضحیک اور ان کے دلوں میں رعب پیدا کرنا تھا!!
گھوڑا لے کر جب فرار ہوئے تو گھڑسوار دستے نے ان کا پیچھا کیا .. جب یہ دستہ قریب آتا تو یہ گھوڑے کو ایڑ لگا دیتے..اور جب دور ہو جاتا تو اپنی رفتار کم کرلیتے تاکہ وہ ان کے ساتھ آملیں ، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان میں سے ایک کو دھوکے سے کھینچ کر سعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے حکم کےمطابق لے جائے!!
چنانچہ 3 سواروں کے علاوہ کوئی بھی ان کا پیچھا نہ کر سکا .. انھوں نے ان میں سے دو کو قتل کیا اور تیسرے کو گرفتار کرلیا!! یہ سب کچھ تن تنہا انجام دیا!!
قیدی کو پکڑا ، نیزہ اس کی پیٹھ کے ساتھ لگایا ، اور اسے اپنے آگے ہانکتے ہوئے مسلمانوں کے معسکر جا پہنچے..اور سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا .. فارسی کہنے لگا : مجھے جان کی امان دو میں تم سے سچ بولوں گا ..سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے: تجھے امان دی جاتی ہے اور ہم وعدے کی پاسداری کرنے والی قوم ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جھوٹ مت بولنا.. پھر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں اپنی فوج کے بارے میں بتاؤ ..فارسی انتہائی دہشناک اور ہذیان کی کیفیت میں کہنے لگا :اپنے لشکر کے بارے میں بتانے سے قبل میں تمہیں تمہارے آدمی کے بارے میں بتلاتاہوں !!!!
کہنے لگا : "یہ آدمی، ہم نے اس جیسا شخص آج تک نہیں دیکھا ، میں ہوش سنبھالتے ہی جنگوں میں پلا بڑھا ہوں ، اس آدمی نے دو فوجی چھاؤنیوں کو عبور کیا ، جنہیں بڑی فوج بھی عبور نہ کر سکتی تھی، پھر سالار لشکر کا خیمہ کاٹا ، اس کا گھوڑا بھگا کر لے اڑا ، گھڑسوار دستے نے اس کا پیچھا کیا ، جن میں سے محض 3 ہی اس کی گرد کو پا سکے ، ان میں سے ایک مارا گیا ۔جسے ہم ایک ہزار کے برابر سمجھتے تھے ، پھر دوسرا مارا گیا جو ہمارے نزدیک ایک ہزار افراد کے برابر تھا ، اور دونوں میرے چچا کے بیٹے تھے۔میں نے اس کا پیچھا جاری رکھا اوران دونوں مقتولین کے انتقام کی آگ سے میرا سینہ دھک رہا تھا ، میرے علم میں فارس کا کوئی ایسا شخص نہیں جو قوت میں میرا مقابلہ کر سکے۔اور جب میں اس سے ٹکرایا تو موت کو اپنے سر پر منڈلاتے پایا، چنانچہ میں نے امان طلب کر کے قیدی بننا قبول کر لیا۔اگر تمہارے پاس اس جیسے اور افراد ہیں تو تمہیں کوئی ہزیمت سے دوچار نہیں کر سکتا!!!"
پھر اس فارسی نے اسلام قبول کر لیا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ عظیم بطل کون تھے؟
جنہوں نے لشکر فارس کو دہشت زدہ کیا ، ان کے سالار کو رسوا کیا اور ان کی صفوں میں نقب لگا کر واپس آگئے۔
یہ طلیحہ بن خویلدالاسدی رضی اللہ عنہ تھے۔
سردی
ایران کا ایک بادشاہ سردیوں کی شام جب اپنے محل میں داخل ھو رھا تھا تو ایک بوڑھے دربان کو دیکھا جو محل کے صدر دروازے پر پُرانی اور باریک وردی میں پہرہ دے رھا تھا۔ بادشاہ نے اُس کے قریب اپنی سواری کو رکوایا اور اُس ضعیف دربان سے پوچھنے لگا:"سردی نہیں لگ رھی؟"دربان نے جواب دیا: "بہت لگتی ھے حضور۔ مگر کیا کروں، گرم وردی ھے نہیں میرے پاس، اِس لئے برداشت کرنا پڑتا ھے۔""میں ابھی محل کے اندر جا کر اپنا ھی کوئی گرم جوڑا بھیجتا ھوں تمہیں۔"دربان نے خوش ھو کر بادشاہ کو فرشی سلام کہےاور بہت تشکّر کا اظہار کیا،
لیکن بادشاہ جیسے ھی گرم محل میں داخل ھوا، دربان کے ساتھ کیا ھوا وعدہ بھول گیا۔صبح دروازے پر اُس بوڑے دربان کی اکڑی ھوئی لاش ملی اور قریب ھی مٹّی پر اُس کی یخ بستہ انگلیوں سے لکھی گئی یہ تحریر بھی:"بادشاہ سلامت، میں کئی سالوں سے سردیوں میں اِسی نازک وردی میں دربانی کر رھا تھا مگر کل رات آپ کے گرم لباس کے وعدے نے میری جان نکال دی۔
بت شکن اور بت فروشی
ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﻧﮯ ﺟﺐ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺖ ﺗﻮﮌ ﮈﺍﻟﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ ﺑﺖ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺗﻬﺎ ، ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﻮ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﮯ ﭘﺠﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﺁﮦ ﻭ ﺯﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ : ﺍﺱ ﺑﺖ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺗﻮﮌﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻮﺽ ﺍﺱ ﺑﺖ ﮐﮯ ﻭﺯﻥ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺳﻮﻧﺎ ﻟﮯ ﻟﻮ ..... ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻧﮯ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﯿﺎ ، ﺳﺐ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﻓﺘﺢ ﺗﻮ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ، ﺍﺏ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﺖ ﮐﻮ ﭼﻬﻮﮌ ﺑﻬﯽ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺧﺎﺹ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ . ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﺟﻮ ﻣﺎﻝ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﻭﮦ ﻟﺸﮑﺮﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ..
ﺍﺳﯽ ﻟﺸﮑﺮ ﮐﮯ ﺳﭙﮧ ﺳﺎﻻﺭ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻏﺎﺯﯼ ﺑﻬﯽ ﺗﻬﮯ . ﺍﻧﻬﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﺖ ﻓﺮﻭﺷﯽ ﮨﮯ . ﺍﺏ ﺗﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﺖ ﺷﮑﻦ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺗﻬﮯ ، ﺍﺏ ﺑﺖ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﮩﻼﺋﯿﮟ ﮔﮯ ..ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ، ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﺣﺪ ﺗﮏ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺍﺏ ﺑﻬﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﻬﯽ . ﺩﻭﭘﮩﺮ ﮐﻮ ﺳﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﻬﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺣﺸﺮ ﺑﭙﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﺍﻧﻬﯿﮟ ﺩﻭﺯﺥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﮐﻬﯿﻨﭽﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﺖ ﻓﺮﻭﺵ ﮨﮯ ، ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﺖ ﺷﮑﻦ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮯﺟﺎﻭ ..
ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﻬﻞ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻓﻮﺭﺍ ﺍﺱ ﺑﺖ ﮐﻮ ﺑﻬﯽ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ . ﺟﺐ ﺑﺖ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﺍ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﺳﮯ ﮐﺜﯿﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﻧﮑﻠﮯ ..
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻧﮯ ﺣﻖ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺖ ﻓﺮﻭﺷﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻣﺎﻝ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺑﺖ ﻓﺮﻭﺷﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﻬﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺎﻝ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ.
Subscribe to:
Posts (Atom)